خود کلامی میں راتیں گزر جائیں گی
ہفتہ گزرے گا عمریں گزر جائیں گی
ایک خط میں لکھوں گا بنامِ خدا
قصے سے پہلے آہیں گزر جائیں گی
لوگ کہتے رہیں گے غزل پر غزل
تیری آنکھوں پہ غزلیں گزر جائیں گی
پتھروں کی طرح وہ رہے گا خموش
ساری کی ساری باتیں گزر جائیں گی
میں نے دیکھا ہے خوابوں میں لپٹا سفر
پھیری والے کی نیندیں گزر جائیں گی
تازہ فصلوں پہ ایسا بھی ہو گا ستم
گھر بنائیں گے راہیں گزر جائیں گی
وہ اِشارے پہ تالی بجائے گا بس
لوگ دیکھیں گے کاریں گزر جائیں گی
یزدانؔ نقوی
yazdan naqvi
0 Comments