یہ نظم جناب سید سلمان صاحب گیلانی نے جامعہ مدنیہ جدید میں تقر یب سنگِ بنیاد کے موقع پر پڑھی
تمنّا
میری قسمت کا میرے خدا تو اگر دُور کردے اندھیرا تو کیا بات ہے
ہجر کی تند و تاریک راتوں کا اب ہو حرم میں سویرا تو کیا بات ہے
میرے ہونٹوں پہ ہر دم رہیں پُھوٹتے اپنے آقا کی توصیف کے زمزے
اس کے بدلے مجھے قبر اور حشر میں رحمتوں نے ہو گھیرا تو کیا بات ہے
اس سے بڑھ کر بھی کیا کوئی اعزاز ہے اُن کی حرمت پہ کٹ جائے گی گردن مری
لُطف سے اپنے کر دے کسی روز یہ پورا ارمان میرا تو کیا بات ہے
اے خدا جسم پر بازؤں کی جگہ اپنی قدرت سے تو پر لگا دے مجھے
دِن کو اُڑتا پھروں گرد کعبے کے شب ہو مدینے بسیرا تو کیا بات ہے
نیکیوں سے تو دامن ہے خالی مرا ایک اُمّید پر آسرا ہے فقط
شافع حشر کے فیض سے حشر میں کام بن جائے میرا تو کیا بات ہے
رشک میرے مقدر پہ کرنے لگیں ، سب فرشتے بھی ، حوریں بھی ، غلمان بھی
اپنے آقا کے قدموں میں یوں جا کے میں ڈال دوں اپنا ڈیرا تو کیا بات ہے
سبز گنبد کو مشاقِ نظروں سے میں ٹکٹکی باندھ کر ایسے تکتا رہوں
لب پہ صلی علیٰ کا مرے وِرد ہو ، دم نکل جائے میرا تو کیا بات ہے
اے خدا اپنے محبوب برحق کی تو خواب میں ہی زیارت کرا دے کبھی
مستحق تو نہیں میں اس اعزاز کا ، فضل ہو جائے تیرا تو کیا بات ہے
اب تو جی میں ہے جا کے وہیں جا بسوں ، موت آئے تو آئے وہیں پہ مجھے
ہو مدینے کی گلیوں کا اس مرتبہ اس طرح کا جو پھیرا تو کیا بات ہے
روزِ محشر کرم یوں ہو سلمان پر جب پریشاں کھڑا ہو وہ میزان پر
آکے ، خود وہ فرشتوں سے کہہ دیں وہاں ، یہ ثناخواں ہے میرا تو کیا بات ہے
0 Comments