اخری ڈر تیرا بچھڑنا تھا
اخری بار ڈر چکے ہیں ہم
کیا شخص تھا جس کو نہیں جیت پائے ہم
کیا شخص تھا کہ ہم سے جو ہارا نہیں گیا
ہم تو موسم کا تغیر بھی نہیں سہ پاتے
اپ لہجے کو بدلتے ہوئے سوچا تو کریں
تم کو معلوم ہے یہ اخری نیندیں ہیں میری
وسعت خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو
کب تقاضہ ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی خود کو مٹا سکتے ہو
تم وہی ہو نا جو دھڑکن کو بڑھا دیتے ہو
کربلا میں یہ بتایا تھا میرے مرشد نے
گوہر پر رکھنے ہو تو اپنا دیا بجھا لینا
دشمن کی پسندیدہ چال دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا ہے
لکھتا ہوں تو تم ہی اترتے ہو قلم سے
پڑھتا ہوں تو لہجہ بھی تم اواز بھی تم
کہیں میں دیر سے پہنچوں تو یاد اتا ہے
کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا
یہ خود مجھے بھی بڑی دیر میں ہوا معلوم
کہ کوئی دکھ مجھے اندر سے کھایا کرتا تھا
دل جے اکھے لگدا ہوندا
یاد تیری نوں کڈ نہ دیندا
تینوں سجنا چھڈنا دیندا
مختصر بات بات کافی ہے ایک تیرا ساتھ ساتھ کافی ہے
جو گزر جائے تیرے پہلو میں ہم کو اتنی حیات کافی ہے
میں ہوں تیرا میرا وجود ہے تو کل یہی کائنات کافی ہے
لاکھ کیجیے مگر محبت میں کب کوئی احتیاط کافی ہے ہمیں ہم سے کیا ہے پھر ہم تم یہ جہاں بھی سب بات کافی ہے اب نہیں کوئی جیتنے میں نشہ تم سے پائی مات کافی ہے کر اونچی کر لی فصیل دل ہم نے ایک ہی واردات کافی ہے
ابھی سے شکوہ ہے اندھیروں کا ابھی ابرك یہ رات کافی ہے
جنوں میں ترکے تعلق تو کر لیا
لیکن سکون اسے بھی نہیں بے قرار ہم بھی ہیں
زبان کہتی ہے سارا قصور اس کا ہے
ضمیر کہتا ہے کچھ قصور وار ہم بھی ہیں
کرنے کو بہت کچھ تھا مگر طے یہی پایا
ہم اہل محبت ہیں محبت ہی کریں گے
0 Comments