اندھیر کمرے میں خوشبو لٹا کے جا چکا ہے
عجیب شخص تھا باتیں بنا کے جا چکا ہے
میں جس کو سوچتے راتوں میں تارے گنتا رہا
تمام عمر کو سورج بجھا کے جا چکا ہے
کہ جس کے واسطے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں
وہ میرے چہرے کی رنگت اُڑا کے جا چکا ہے
دل و دماغ میں بس جنگ باقی رہ گئی وہ
جواں بدن میں بغاوت اُٹھا کے جا چکا ہے
ہے کیسے دشمنوں سے سب بتا گیا ہے وہ
جو ایک لمحے کو آنکھیں دکھا کے جا چکا ہے
وہ جس سے پہلے مجھے بھولنے کی عادت تھی
مرے ہی ذہن میں خود کو بٹھا کے جا چکا ہے
کبھی تو اُس کو بھی حسرت تھی ملنے کی یزدانؔ
جو راہِ واپسی یکسر مٹا کے جا چکا ہے
یزدانؔ نقوی
0 Comments