بکھرتے رابطوں کا ہے ، بچھڑتے راستوں کا ہے
دسمبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے
کہیں ہے آس کا بادل کہیں یادوں کی بوندیں ہیں
مچلتی خواہشوں کا ہے ، یہ موسم بارشوں کا ہے
وہی مے کش ہوائیں ہیں وہی گم صم فضائیں ہیں
مری پُر امن دنیا میں یہ موسم سازشوں کا ہے
پرانے عارضے سارے ، امڈ آئے ہیں آنکھوں میں
یہ موسم ہے سرابوں کا یہ موسم وسوسوں کا ہے
وہی سب رت جگے ابرک ، وہی تیرے گلے ابرک
کہ اُس کے بعد بھی ہر پل اُسی کی وحشتوں کا ہے
اتباف ابرک
0 Comments