Ad 1

jafaen hoti hen ghutta hai dam aisa bhi hota hai

                            جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے

مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے
عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی
معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے
رکاوٹ ہے خلش ہے چھیڑ ہے ایذا پہ ایذا ہے
ستم اہل وفا پر دم بدم ایسا بھی ہوتا ہے
حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں خالی
ستم کے بعد کرتے ہیں کرم ایسا بھی ہوتا ہے
دل مہجور آخر انتہا ہے ہر نحوست کی
کبھی سعدین ہوتے ہیں بہم ایسا بھی ہوتا ہے
نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
نہ ہو درد جدائی سے جو واقف اس کو کیا کہیے
ہمیں وہ دیکھ کر کہتے ہیں غم ایسا بھی ہوتا ہے
بتوں کے ملنے جلنے پر نہ جانا اے دل ناداں
بڑھا کر ربط کر دیتے ہیں کم ایسا بھی ہوتا ہے
ہمیں بزم عدو میں وہ بلاتے ہیں تمنا سے
کرم ایسا بھی ہوتا ہے ستم ایسا بھی ہوتا ہے
جگہ دی مجھ کو کعبے میں خدائے پاک نے زاہد
تو کہتا تھا کہ مقبول حرم ایسا بھی ہوتا ہے
ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں
کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے
امداد امام اثر

Post a Comment

0 Comments