اب کہ ممکن نہیں بن تیرے گزارا ہو جائے
پھر کوئی چال کہ جس سے تو ہمارا ہو جائے
عشق میں حد سے گزر جاؤ تو آتا ہے مقام
آنکھ سے اشک گرے اور ستارا ہو جائے
تم اے بلقیس نہ آؤ مرے حصے میں بھلے
کوئی وعدہ کہ فقیروں کا گزارا ہو جائے
اے مری جان نکل پردۂ افلاک سے تو
ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا ہو جائے
ہم بھی بن جائیں گے ہیرے یہ جہاں دیکھے گا
ہم سا پتھر جو کہیں ان کو گوارا ہو جائے

0 Comments